سبد خرید
جمع سبد خرید
0

طاقت‌ سچائی‌ کی‌ ہے جھوٹ کی‌ محض‌ بیساکھیاں‌ ہیں | تحریر پازل فراز

177

طاقت سچائی کی ہے جھوٹ کی محض بیساکھیاں ہیں

پازل پراز

جھوٹ، مکاری اور فریب وہ بیساکھیاں ہیں جن کے ذریعے کمزور بنیادوں پر کھڑی طاقتیں خود کو سہارا دیتی ہیں۔ ان کے پاس حیلے اور بہانے ہزار ہوتے ہوں، مگر سچ کا راستہ ایک ہوتا ہے، اور سچائی پر کھڑا انسان اگر کمزور بھی ہو، تو بھی وہ ہمیشہ ان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے جو جھوٹ کی بیساکھیوں پر کھڑے ہوں۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بی این ایم کے ممبران سمیت کچھ آزادی پسند نادان یا چالاک ساتھیوں نے حیربیار مری کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی شخصیت کو متنازع بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح کے ہتھکنڈے کسی ایک فرد کی ذات تک محدود نہیں، بلکہ وہ مجموعی طور پر بلوچ قومی تحریک کو نقصانات سے دوچار کر رہے ہیں۔ وہ آزادی پسند قوم پرست سیاست اور پارلیمانی نام نہاد قوم پرست سیاست کے درمیان ایک واضح لکیر کو دھندلا کر رہے ہیں، جو کہ بلوچ تحریک کے لیے درست سمت کی وضاحت اور ہدف کے تعین کے لیے انتہائی ضروری ہے مگر اس حساس نقطے کو کو سمجھنے کے لیے سیاسی وژن کے ساتھ ساتھ خلوص اور نیت بھی درکار ہے، اور جو لوگ جھوٹ، مکاری اور فریب کے بیساکھیوں پر کھڑے ہیں، ان میں اتنی بصیرت کہاں؟

آپ ان کے منافقت کا مظاہرہ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ 2012 میں جب حیربیار مری بلوچستان لبریشن چارٹر پیش کرتے ہیں تاکہ قومی آزادی اور اس کے بعد ریاست کی تشکیل کے لیے ایک واضح روڈمیپ کے تحت تمام آزادی پسند قوتوں کو یکجا کرکے ہم آہنگی سے کام کریں، اور جن جن پارٹیوں کا موقف واضح نہیں تھا، ان کو بھی ایک شرط کے ساتھ یہ چارٹر پیش کیا گیا کہ وہ "قومی آزادی" کے حوالے سے اپنا موقف واضح کر کے قومی تحریک میں آزادی پسندوں کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔تو بی این ایم سمیت کچھ قوتوں کو یہ خیال آیا کہ حیربیار مری تو "سردارزادہ" ہے حالانکہ اس نے تو "سردارزادہ" کے طور پر خود کو کبھی بھی متعارف نہیں کروایا، بلکہ بقول استاد صبا دشتیاری "وہ واحد سردارزادہ ہے جس نے اپنا سب کچھ قومی آزادی کی راہ میں وقف کیا"۔ بابا خیر بخش مری کے انتقال کے بعد انہوں نے بیان دے کر اپنے قبیلے کے اندر قبائلیت کو ختم کرنے کا عہد کیا اور بلوچستان لبریشن چارٹر پیش کرتے وقت قوم کے سامنے مختلف میٹنگز اور سیمیناروں میں یہ کہا کہ "ہم آزاد بلوچستان میں سرداروں کی سرپرستی نہیں چاہتے، اور ہم یہ کبھی قبول نہیں کریں گے کہ طاقت سرداروں کے ہاتھوں میں ہو"۔ وہ یہ بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ "طاقت عوام کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے، بذریعہ پارلیمنٹ اور جوڈیشری۔ ہر کسی کو آزاد بلوچستان کے آئین و قانون کے تحت سیاست کرنے اور پارلیمان کا حصہ بننے کا حق حاصل ہوگا، لیکن کوئی اپنی سرداری کی وجہ سے پارلیمان کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی سرداروں کا جوڈیشری میں کوئی کردار ہوگا" اور دوسری طرف، اگر بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے بانیوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں حیربیار کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ بابا خیر بخش مری کے وطن واپسی کے بعد وہ تحریک کو دوبارہ فعال کرنے میں متحرک ہوئے اور اس کی مسلسل جدوجہد نے بلوچستان کے طول و عرض میں تحریک کو دوبارہ فعال کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ہم فکر ساتھیوں کو دعوت دینے اور اپنے ساتھ ملانے سے لے کر اہداف کے تعین تک (یعنی قومی آزادی کے واضح موقف کے ساتھ جدوجہد) اور دیگر ضروریات اور اجزاء کو اکٹھا کرنے تک، حیربیار مری کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ فیز جس کی اس نے بنیاد رکھی ہے، اپنے واضح ہدف اور تسلسل کی وجہ سے اب تک کی کامیاب ترین "Uprising" ثابت ہوئی ہے، جس میں واضح طور پر اس کے کردار اور محنت کو کوئی نفی نہیں کر سکتا مگر کچھ دنوں سے حیربیار مری کا موازنہ کچھ چالاک لوگوں کی طرف سے سردار اختر مینگل سے کیا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی منافقت اور سیاسی پتے بازی کیا ہو کہ جو شخص سردار نہیں ہے، اس کو "سردار" کا لقب لگا کر متنازع بنایا جائے، اس کے بغض میں "اینٹی سردار" اور "پرو سردار" کا کہورخانی اور یاسینی سیاست کا گھڑا مردہ نکالا جائے ، اور دوسری طرف ایک ایسا شخص جو "باقاعدہ سردار" ہے، اس کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں۔اس صورتحال پر بے اختیار اردو کا یہ شعر یاد آتا ہے:

"شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا"

خیر، کسی کے سردار ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہے، اور دراصل سردار اختر مینگل سے ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ، اس سے سیاسی طور پر ہمارا اختلاف ضرور ہے جو بالکل واضح ہے کہ وہ پاکستان کے فیڈریشن کی سیاست کرتے ہیں۔ بلوچ تحریک کے خلاف اس کے اسمبلی میں کیے گئے تقریر بھی ریکارڈ پر ہیں اور ہم اس نام نہاد فیڈریشن سے آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی صورت پنجاب کے ساتھ ایک فیڈریشن میں نہیں رہنا چاہتے۔ یہ بنیادی اور سب سے اہم اختلاف ہے۔

دوم، یہ کہ سردار اختر مینگل نے ہر موقع پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے یا بقول بابا مری "دو کشتیوں پر بیک وقت سواری کرنے کی کوشش کی ہے"۔ چاغی پر جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو اس "عظیم کامیابی" پر پنجابیوں کا ہاتھ پکڑ کر یکجہتی کا علامت بنانے والا کون تھا؟ گاڑی ڈرائیو کرنت والا کون تھا؟ نواب اکبر بگٹی کے سنگل پارٹی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں درپردہ ہاتھ کس کا تھا؟ نواب بگٹی سے یہ وعدہ پورے عوام کے سامنے کس نے کیا تھا کہ "اگر ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلی تو اس کا جواب وڈھ سے آئے گا"؟اور وڈھ میں بقول شخصے ایک پٹاخہ تک نہ پھوٹا۔ شہید غلام محمد کے انتقال کے بعد جو غم اور غصے کی لہر اُٹھی، اس کو "کیش" کرنے کے لیے کس نے بلوچستان کے مختلف شہروں میں جلسے جلوس کرکے ڈھینگیں ماریں؟ اور بعد ازاں پانچ نقاطی پروگرام کے ساتھ پارلیمنٹ کی گدی تک کون پہنچا؟

یہ پہلی بار نہیں ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے مقصد اور ہدف سے مخلص ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماضی کے برے تجربوں کو محض برا تجربہ سمجھ کر ان سے چشم پوشی نہ کریں، بلکہ ان سے سبق سیکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسی غلطیاں دانستہ طور پر دوبارہ نہ ہوں۔ اور ایک آزادی پسند جماعت کے طور پر بی این ایم کے ممبران کا اور دیگر آزادی پسند قوتوں کا اختر مینگل کی حمایت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ایک پاکستانی پارلیمانی پارٹی کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں اور عوام کو ان کی حمایت کرنے کی ترغیب کیسے دے سکتے ہیں؟ کیا وہ ایسا کر کے ایک بڑی سیاسی غلطی کا مرتکب نہیں ہو رہے؟

کیا یہی صورتحال ہم نے اس وقت بھی نہیں دیکھا جب ایک کٹر بلوچ مخالف مذہبی جماعت کے کارکن نے اسمبلی میں ایک سیٹ کے حصول کے لیے سڑکیں بلاک کر کے ڈرامہ رچایا، اور بی این ایم کے ممبران اور اس کے نظریاتی دوستوں نے نہ صرف ٹویٹ کر کے عوام کو ان کی حمایت کرنے کے لیے بڑھاوا دیا، بلکہ ٹویٹر پر اسپیس لگا کر عوام کو قائل کرنے میں پیش پیش رہے۔ مگر آج اس مذہبی جماعت کا "انقلابی کارمریڈ" کہاں کھڑا ہے؟

پھر ستم یہ ہے کہ یہی لوگ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ حیربیار مری کا باب بند ہو چکا ہے، وہ بس لندن میں بیٹھے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جنہیں وہ آج لیڈر کہتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر حیربیار کی ہی سیاسی کاوشوں کے نتیجے میں ابھرے ہیں، حتیٰ کہ کچھ نامور آزادی پسند لیڈر تو ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، مگر کیا کریں، ان کے نزدیک مقبولیت ہی طاقت ہے ان کو بس نعروں کا شور میں اور ٹک ٹاک کے reels میں جو زیادہ مقبول ہو وہی رہنما نظر آتا ہے۔

حقیقت یہ ہے دراصل طاقت اسی کے پاس ہے جو نظریاتی بنیادوں پر مسلسل اصولی سیاست کرتا رہے۔ "نظریاتی جدوجہد" ہی سچائی پر استوار ہوتی ہے، اور سچ کا راستہ ہمیشہ واضح اور سیدھا ہوتا ہے، خواہ اس پر چلنے والے کے پاس وسائل کم ہوں، نعرے بلند کرنے والے کم ہوں اور سوشل میڈیا میں reels شئیر کرنے والے نہ ہوں۔ جھوٹے، مکار اور فریبی افراد کے پاس ہمیشہ ہزاروں حیلے، بہانے اور سازشیں ہوتی ہیں، ان کے پاس زیادہ شہرت بھی ممکن ہے زیادہ ہو لیکن سچ ہمیشہ ایک ہی راستہ دکھاتا ہے۔ جو شخص اس راستے پر ثابت قدم رہتا ہے، وہ حقیقت میں طاقت کا مالک ہوتا ہے، کیونکہ سچ کو بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔

لیکہ
سمیلک
17 فروردین 1404
ھیربیار مری کو سلام
تو نوکیں لکہ ئے دیم دئیگے
تئی نام::
تئی لکہ ئے نبشتانک::
سیکورٹی سوال:3 x 1 چکر بیت؟: